Results 1 to 2 of 2

Thread: قانونِ ہدایت Û”Û”Û”Û”Û” مولانا امین اØ+سن اصلاØ+ÛŒ

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam قانونِ ہدایت Û”Û”Û”Û”Û” مولانا امین اØ+سن اصلاØ+ÛŒ

    قانونِ ہدایت Û”Û”Û”Û”Û” مولانا امین اØ+سن اصلاØ+ÛŒ

    qanoon-e-hidayat.jpg
    قرآن Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ ایمان Ùˆ عمل Ú©ÛŒ تعلیم اور قلب Ùˆ روØ+ Ú©Û’ تزکیے کیلئے اتارا ،دماغی عیاشیوں اور کج بØ+ثیوں کیلئے نہیں
    اس لیے اس کا فیض صرف انہی لوگوں Ú©Ùˆ پہنچ سکتا ہے جو اس Ú©Û’ پاس پاک دل اور سننے والے کان Ù„Û’ کر Ø+اضرہوں‘جنگجو دماغ اور اُلجھانے والی عقل Ù„Û’ کر نہ آئیں۔سورۂ Ù‚ میں فرمایا :ترجمہ’’بے Ø´Ú© اس میں ان لوگوں Ú©Û’ لیے بڑی یاد دہانی ہے جن Ú©Û’ پاس دل ہو یا وہ بات متوجہ ہو کر سننے Ú©Û’ لیے کان لگائیں‘‘۔ (سورہ Ù”Ù‚Û” 37-50)

    اور پھر قرآن میں ہی قلب Ú©Û’ متعلق یہ تصریØ+ فرمائی کہ ترجمہ’’ وہ سلیم ہو۔‘‘(الصٰفت۔ 84:37) (جب کہ وہ Ø+اضر ہوا اپنے رب Ú©Û’ Ø+ضور میں قلبِ سلیم Ú©Û’ ساتھ)۔سورۂ Ù‚ میں ہے: وجاء بقلب منیب۔(Ù‚Û”33:50 )(اور Ø+اضر ہوا متوجہ رہنے والے دل Ú©Û’ ساتھ)۔ان دونوں لفظوں سے یہ بات واضØ+ ہوجاتی ہے کہ جو خدا کا کلام سننے کیلئے آئے وہ قلبِ سلیم اور قلبِ منیب Ù„Û’ کر آئے۔متکبر اور جبار کا قلب Ù„Û’ کر نہ آئے‘ کیونکہ ایسے دلوں پر اللہ Ú©ÛŒ مہر ہوتی ہے‘وہ خدا Ú©ÛŒ باتوں Ú©Û’ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں:

    ترجمہ:’’جو اللہ Ú©ÛŒ آیات Ú©Û’ باب میں Ú©Ù¹ Ø+جتی کرتے ہیں بغیر کسی دلیل Ú©Û’ جو ان Ú©Û’ پاس آئی ہو‘ اللہ اور اہل ایمان Ú©Û’ نزدیک وہ نہایت مبغوض ہیں‘ اسی طرØ+ اللہ مہر کر دیا کرتا ہے ہر متکبر Ùˆ جبار Ú©Û’ دل پر‘‘۔(سورۃالم٠ˆ من 35-40)

    قرآن Ú©Û’ تدبر Ú©Û’ پہلے ہی مرØ+Ù„Û’ میں جو بات واضØ+ ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس Ú©ÛŒ طرف صرف وہی بڑھنا موجب خیر Ùˆ برکت ہے جو ایمان اور عمل صالØ+ Ú©Û’ Ø+صول کیلئے ہو۔اس ایک خواہش Ú©Û’ علاوہ اگر کسی شخص Ú©Û’ اندر کسی دوسری خواہش کا کوئی ادنیٰ شائبہ بھی پایا گیا تو بس قرآن کا دروازہ اس کیلئے بند ہے اور پھر انسانی سعی Ùˆ کاوش Ú©ÛŒ کوئی کلید بھی اس بنددروازے Ú©Ùˆ نہیں کھول سکتی۔بات Ú©Ùˆ سنئے اور فوراً اس Ú©ÛŒ طرف عمل اور پیروی کیلیے قدم بڑھا دیجئے تو قرآن خوش ہے اور پھر درجہ بدرجہ ایمان اور عمل Ú©ÛŒ راہوں میں ہم جس قدر استوار اور مضبوط ہوتے جائیں Ú¯Û’ اُسی قدر اس Ú©ÛŒ برکتیں ہمارے لیے بڑھتی جائیں گی‘ لیکن اگر ایسا نہیں ہے‘ہم قرآن Ú©ÛŒ باتیں معلوم کرنا چاہتے ہیں مگر ہمت عمل نہیں رکھتے‘یا اپنی خواہشوں Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ اØ+کام Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ ترک نہیں کر سکتے‘یا Ù…Ø+ض اس لیے اس Ú©Ùˆ پڑھنا چاہتے ہیں کہ ہم Ú©Ùˆ ’’تØ+قیق‘‘ اور’’ریسرچ‘⠘ کا ذوق ہے یا ہمارے Ú©Ú†Ú¾ اپنے خیالات ہیں جن کیلئے قرآن Ú©ÛŒ سند ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے Ù…Ø+رومی Ú©Û’ سوا قرآن میں اور Ú©Ú†Ú¾ نہیں ہے۔اوپر ہم Ù†Û’ دو جماعتوں کا جو ذکر کیاہے وہ بالکل اصولی تقسیم تھی۔قرآن مجید Ù†Û’ اس سے زیادہ بسط Ùˆ تفصیل Ú©Û’ ساتھ ہم Ú©Ùˆ بتایا ہے کہ کس قسم Ú©Û’ لوگ ہیں جو قرآن سے ہدایت Ø+اصل کرتے ہیں اور کس قسم Ú©Û’ لوگ ہیں جو اس Ú©Û’ فیض سے Ù…Ø+روم رہتے ہیں۔

    ہدایت Ùˆ ضلالت Ú©Û’ متعلق ایک اصولِ Ø+قیقت تو یہ ہے کہ یہ سرتاسراللہ Ú©ÛŒ توفیق اور اس Ú©ÛŒ توفیق سے Ù…Ø+رومی پر منØ+صر ہے۔جن لوگوں Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے وہ اس Ú©ÛŒ کتاب سے فیض اٹھاتے ہیں اور جن لوگوں Ú©Ùˆ وہ اپنی توفیق سے Ù…Ø+روم کر دیتا ہے وہ اس فیض سے Ù…Ø+روم رہ جاتے ہیں۔اس ضابطے Ú©Ùˆ قرآن Ù†Û’ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:ترجمہ ’’یہ کتاب ہے جو ہم Ù†Û’ تمہاری طرف اس لیے اتاری ہے کہ تم لوگوں Ú©Ùˆ تاریکیوں سے نکال کر روشنی Ú©ÛŒ طرف لائو‘ان Ú©Û’ رب Ú©Û’ اذن سے‘خدائے عزیز Ùˆ Ø+مید Ú©Û’ راستہ Ú©ÛŒ طرف‘‘۔یعنی قرآن مجید کا مقصد لوگوں Ú©Ùˆ گمراہی Ùˆ ضلالت Ú©ÛŒ تاریکی سے نکال کر ایمان Ùˆ ہدایت Ú©ÛŒ روشنی میں لانا ہے اور یہ کام ایک مخصوص قانون Ú©Û’ مطابق انجام پاتا ہے۔کیونکہ فرمایا ہے:باذن ربھم Û” یعنی پیغمبر Ú©Û’ اختیارمیں نہیں ہے کہ وہ جس Ú©Ùˆ چاہے ایمان Ùˆ ہدایت بخش دے‘ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ اختیار میں ہے‘ وہ جس Ú©Ùˆ چاہتا ہے ایمان سے بہرہ ور فرماتا ہے اور جس Ú©Ùˆ چاہتا ہے گمراہی Ú©Û’ Ú©Ú¾Úˆ میں گرا دیتا ہے اور اس کا یہ چاہنا ایک قانونِ Ø+کمت Ú©Û’ مطابق ہے۔وہ قانونِ Ø+کمت کیاہے؟اس کا جواب قرآن مجید Ù†Û’ متعدد مقامات میں دیا ہے‘لیکن سورۂ بقرہ Ú©Û’ آخر میں‘تعلیم Ø+کمت Ú©Û’ باب میں‘اس پر نسبتاً زیادہ تفصیل Ú©Û’ ساتھ بØ+Ø« Ú©ÛŒ ہے۔اس لیے ہم اسی مقام Ú©Ùˆ اس معاملے Ú©ÛŒ توضیØ+ Ú©Û’ لیے منتخب کرتے ہیں۔فرمایا: ترجمہ:’’اللہ ان لوگوں کا کارساز ہے جو ایمان لاتے ہیں‘ وہ ان Ú©Ùˆ تاریکیوں سے روشنی Ú©ÛŒ طرف لاتا ہے اور جن لوگوں Ù†Û’ کفر کیا ہے ان Ú©Û’ کارساز طاغوت بنتے ہیں‘وہ ان Ú©Ùˆ روشنی سے تاریکیوں Ú©ÛŒ طرف دھکیلتے ہیں۔یہی لوگ دوزخی ہیں‘ یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

    یعنی اللہ اور اس Ú©ÛŒ کتاب Ú©ÛŒ رہنمائی صرف اہل ایمان کیلئے مخصوص ہے‘ اہل کفر اس سے Ù…Ø+روم ہیں۔اہل کفر Ú©Û’ رہبر ومددگار طاغوت ہیں‘ وہ ان Ú©Ùˆ روشنی میں نہیں آنے دیتے‘ اور اگر کبھی روشنی Ú©ÛŒ کوئی کرن ان Ú©Û’ سروں پر جھلک بھی جاتی ہے تو ان Ú©Û’ طاغوت فوراً ان Ú©Ùˆ دھکیل کر تاریکی Ú©Û’ سیاہ پردوں میں چھپا دیتے ہیں کہ کہیں وہ روشنی Ú©Û’ راز سے آشنا نہ ہو جائیں۔اس Ú©Û’ بعد اللہ تعالیٰ Ù†Û’ ان لوگوں Ú©ÛŒ مثال بیان Ú©ÛŒ ہے جن Ú©Ùˆ تاریکی سے روشنی Ú©ÛŒ طرف سے نکالتا ہے‘ یا جن Ú©Ùˆ تاریکی میں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتا ہے اور اس Ú©Û’ لیے تین شخصوں Ú©Ùˆ منتخب کیا ہے جو درØ+قیقت تین جماعتوں Ú©Û’ نمائندے ہیں۔فرمایا:

    ترجمہ:’’کیا تم Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ نہیں دیکھا جس Ù†Û’ ابراہیم سے اس Ú©Û’ رب Ú©Û’ باب میں اس وجہ سے Ø+جت Ú©ÛŒ کہ خدا Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ اقتدار بخشا تھا‘ جب کہ ابراہیم Ù†Û’ کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے‘وہ بولا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ابراہیم Ù†Û’ کہا کہ یہ بات ہے توا للہ سورج Ú©Ùˆ پورب سے نکالتا ہے تو اسے Ù¾Ú†Ú¾Ù… سے نکال دے تو وہ کافر یہ سن کر بھونچکارہ گیا اور اللہ ظالموں Ú©Ùˆ راہ یاب نہیں کرتا۔یا جیسے کہ وہ جس کا گزر ایک بستی پر ہوا ‘اس Ù†Û’ کہا کہ بھلا اللہ اس Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ فنا ہو Ú†Ú©Ù†Û’ Ú©Û’ بعد کس طرØ+ زندہ کرے گا؟تو اللہ Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ سوسال Ú©ÛŒ موت دیدی‘ پھر اس Ú©Ùˆ اٹھایا Û” پوچھا:کتنی مدت اس Ø+ال میں رہے؟بولا:ایک دن یا ایک دن کا Ú©Ú†Ú¾ Ø+صہ۔فرمایا:بلکہ تم پورے سوسال اس Ø+ال میں رہے۔اب تم اپنے کھانے پینے Ú©ÛŒ چیزوں Ú©ÛŒ طرف دیکھو‘ ان میں سے کوئی چیز بُسی تک نہیں اور اپنے گدھے Ú©Ùˆ دیکھو‘ہم اس Ú©Ùˆ کس طرØ+ زندہ کرتے ہیں تا کہ تمہیں اٹھائے جانے پر یقین ہو اور تا کہ ہم تمہیں لوگوں کیلیے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں Ú©ÛŒ طرف دیکھو‘کس طرØ+ ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں‘ پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔پس جب اس پر Ø+قیقت اچھی طرØ+ واضØ+ ہو گئی وہ پکارا ٹھا کہ میں مانتا ہوں کہ بے Ø´Ú© اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔اور یاد کرو جب کہ ابراہیم Ù†Û’ کہا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے تُو مردوں Ú©Ùˆ کس طرØ+ زندہ کرے گا؟فرمایا:کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟بولا:ایما Ù† تو رکھتا ہوں‘لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل پوری طرØ+ مطمئن ہو جائے۔ فرمایا:توچار پرندے لو اور ان Ú©Ùˆ اپنے سے ہلالو‘ پھر ان Ú©Ùˆ Ù¹Ú©Ú‘Û’ کر Ú©Û’ ہر پہاڑی پر ان کا ایک Ø+صہ رکھ دو‘ پھر ان Ú©Ùˆ بلائو وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں Ú¯Û’ اور یاد رکھو کہ اللہ غالب اور Ø+کیم ہے۔‘‘

    یہاں ان واقعات Ú©ÛŒ توضیØ+ کا موقع نہیں ہے جن Ú©ÛŒ طرف یہ آیات اشارہ کر رہی ہیں ہم صرف اس Ø+قیقت Ú©Ùˆ معلوم کرنا چاہتے ہیں جو ان آیات Ú©Û’ اندر مضمر ہے اور جس Ú©ÛŒ طرف نظم کلام رہنمائی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ بتایا کہ کون لوگ ہیں جو تاریکی سے روشنی Ú©ÛŒ طرف آتے ہیں اور کون لوگ ہیں جو روشنی سے تاریکی Ú©ÛŒ طرف جاتے ہیں۔پس نظم اور اسلوب کلام’’الم ترالی الذین Ø+اج ابراہیم فی ربہ‘‘۔(کیا تم Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ نہیں دیکھا جس Ù†Û’ ابراہیم سے اس Ú©Û’ رب Ú©Û’ باب میں Ø+جت Ú©ÛŒ)دونوں مقتضی ہیں کہ ان آیات کا تعلق ماسبق آیت سے ہو Û” پھر جب ہم ان آیات Ú©Û’ مضمون پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ آیت ماسبق میں جس بات Ú©Ùˆ اجمال Ú©Û’ ساتھ بیان فرمایا تھا ان آیات میں اسی Ú©Ùˆ پوری وضاØ+ت‘بلکہ تمثیل Ú©Û’ ساتھ سمجھا دیا ہے کہ کس قسم Ú©Û’ لوگ ہیں جو خدا Ú©ÛŒ روشنی سے Ù…Ø+روم رہتے ہیں اور کون لوگ ہیں جو اس Ú©ÛŒ ہدایت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔اب آیئے ان آیات Ú©Ùˆ اچھی طرØ+ تØ+لیل کر Ú©Û’ سمجھیں۔ان میں غور کرنے سے تین شخصوں کا بیان معلوم ہوتا ہے:

    ایک وہ شخص ہے جو Ø+کومت‘ دولت اور ملک Ùˆ سلطنت Ú©Û’ نشے سے مخبوط ہے‘ Ø+ضرت ابراہیم علیہ السلام Ù†Û’ اس Ú©Û’ سامنے اللہ Ú©ÛŒ روشنی پیش Ú©ÛŒ ۔لیکن وہ غرور Ú©ÛŒ بدمستی میں کسی بات پر غور کرنا نہیں چاہتا‘بلکہ Ø+ضرت ابراہیم علیہ السلام Ú©ÛŒ بات پر فوراً معارضہ کر بیٹھتا ہے۔Ø+ضرت ابراہیم علیہ السلام اس Ú©Û’ معارضے کا نہایت معقول جواب دیتے ہیں اور وہ ان Ú©Û’ جواب سے لاجواب بھی ہو جاتا ہے‘لیکن پھر بھی اس پر ایمان وہدایت Ú©ÛŒ راہ نہیں کھلتی کیونکہ اﷲتعالیٰ Ú©ÛŒ روشنی طلب گاروں اور ڈھونڈ Ù†Û’ والوں Ú©Û’ لئے ہے Û” جو اس سے معارضہ کرتے ہیں ان Ú©ÛŒ آنکھیں اس سے چند ھیاتو جاتی ہیں ØŒ لیکن اس سے ان پر ایمان Ú©ÛŒ راہ نہیں کھلتی Û”

    دوسرا وہ شخص ہے جو علم وایمان اور یقین وبصیر ت کا طلب گارہے اور ان چیزوں Ú©Û’ Ø+اصل کرنے کیلئے وہ اس طریقے پر گامزن ہے جو اہل Ø+Ù‚ کا طریقہ ہو تا ہے وہ علم Ú©Û’ جھوٹے مد عیوں اور مناظرہ بازوں Ú©ÛŒ طر Ø+ بستیوں ØŒ مدرسوں ØŒ مسجدوں اور خانقاہوں میں مبا Ø+Ø«Û’ اور مناظرے Ú©ÛŒ مجلسیں نہیں منعقد کر تا پھرتا اور نہ یہ کر تا ہے کہ جو خطرہ دل میں گزر جائے اس Ú©Ùˆ جھٹ چند ورقوں میں چھاپ کرساری دنیا میں اپنے علم Ùˆ فضل کا ÚˆÚ¾Ù†Úˆ ورا پیٹنے Ú©ÛŒ Ú©Ùˆ شش کرے۔ بلکہ سوچنے والے دماغ اور غو ر کرنے والے والی طبیعت Ú©ÛŒ طرØ+ وہ خلوت Ú©Û’ گوشوں اور تنہائی Ú©Û’ ویرانوں کا شائق ہے ØŒ وہ بستیوں Ú©Û’ ہجوم سے بھاگتا اور شہروں Ú©Û’ اژدØ+ام سے گھبراتاہے اورچاہتاہے کہ کسی مقام عبر ت Ùˆ موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آ جائے تواپنے ان سوالوں Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر بیٹھ جا ئے جن Ú©Û’ جواب کیلئے وہ ہمہ وقت تشنہ وبے قرار ہے چنانچہ اسی طرØ+ Ú©ÛŒ کسی ÚˆÚ¾Ù¹ÛŒ ہو ئی بستی پر اس کا گزر ہو جا تا ہے اس Ú©ÛŒ منہدم دیو ار ØŒ اس Ú©Û’ ٹوٹے ہوئے در ØŒ اس Ú©ÛŒ پرگندہ اینٹیں، اس Ú©ÛŒ ÙˆØ+شت وویرانی Ú©ÛŒ خاموشی اس Ú©Û’ سامنے عبر توں اور بصیرتوں کا ایک دفتر کھول دیتی ہے اور طبیعت کا ذوق فورا ًاپنے لیے فکر ونظر کا موضو ع تلاش کر لیتا ہے اور جس سوال پر دماغ بار بار زور آزمائی کر Ú©Û’ عاجز آچکا تھا ØŒ لیکن کوئی تشفی بخش Ø+Ù„ نہ پا سکا تھا، موقع وماØ+ول Ú©ÛŒ تاثیر سے دل کا وہی داغ پھر ابھر آتاہے۔اگر چہ سوال وہی ہے جومکہ اور طائف Ú©Û’ سرکشوں Ù†Û’ کیا تھااور جس Ú©Û’ جواب میں قرآن Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ جھڑ Ú©ÛŒ سنائی تھی لیکن سوال کرنیوالے Ú©Û’ باطن Ú©ÛŒ ذہنیت بالکل مختلف ہے وہا Úº انکار کا گھمنڈ تھا یہاں تواضع Ú©ÛŒ مسکینی ہے وہاں منا ظر ہ ومجادلہ کا ولولہ تھا یہاں سوال Ú©ÛŒ خلش اور اضطراب ہے ،وہا Úº Ø+ریف Ú©Ùˆ Ú†Ù¾ کرنے Ú©ÛŒ خواہش کا رفرماتھی یہاں سوال ہے اور ان دونوں میں آسمان وزمین کا فرق ہے چنانچہ اس شخص Ú©Û’ ساتھ بالکل مختلف معاملہ ہو تا ہے اس Ú©Û’ Ø´Ú© Ú©Û’ ازالے Ú©Û’ لیے اسباب Ú©Û’ تمام پردے ہٹادئیے جا تے ہیں ØŒ اور ایک ایسی صورت Ø+الات سامنے آجا تی ہے جو Ø´Ú© Ú©Û’ ایک ایک کا نٹے Ú©Ùˆ Ú†Ù† Ú†Ù† کرنکال دیتی ہے اور وہ یقین کا مل Ú©ÛŒ روشنی سے معمور ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ بے Ø´Ú© اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ ترجمہ’’ پس جب اس پر Ø+قیقت اچھی طر Ø+ واضØ+ ہو گئی وہ پکار اٹھا کہ میں جانتا ہوں کہ بے Ø´Ú© اﷲہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘

    اسکے بعد تیسرے شخص Ø+ضرت ابراہیم Ø‘ نمودار ہوتے ہیں ØŒ اور فرماتے ہیں اے پروردگار ØŒ مجھے تودکھا دیا کہ تُومردوں Ú©Ùˆ کیسے زندہ اٹھا کھڑا کرے گا ØŒ سوال ہو تاہے کہ کیا تم اس با ت پر ایمان ویقین نہیں رکھتے ؟فرماتے ہیں، ایمان ویقین توہے ØŒ بھلا ایمان Ùˆ یقین کیوں نہ ہو گا ØŒ تیرے علم وقدرت سے کیا بعید ہے ØŒ تُوتوسب Ú©Ú†Ú¾ کر سکتاہے ،لیکن اے رب ØŒ میں ایمان ویقین سے Ú©Ú†Ú¾ زیادہ چاہتا ہوں ØŒ میں شرØ+ صدر کا بھوکا ہوں، میں چاہتاہوں کہ انوارو بصیرت Ú©Û’ دریا میں ڈوب جاؤں ØŒ میرا سینہ آفتاب یقین وطمانیت کا ابدی ودائمی مطلع بن جا ئے ØŒ میں جو Ú©Ú†Ú¾ بصیرت سے سمجھا ہوں ØŒ اس Ú©Ùˆ بصارت سے بھی دیکھ لو Úº ØŒ اس Ú©ÛŒ معرفت میں با Ù„Ú©Ù„ غرق ہو جاؤں ØŒ اس Ú©Û’ رنگ میں بالکل رنگ جاؤں۔ ترجمہ (چاہتاہوں کہ میرا دل پوری طرØ+ مطمئن ہو جا ئے)۔‘‘یہ Ø+الت اوپر Ú©ÛŒ دونوں Ø+التوں سے مختلف ہے یہ نہ توانکا راور غرور Ú©ÛŒ Ø+الت ہے نہ Ø´Ú© واضطراب Ú©ÛŒ بلکہ یہ شرØ+ صدر Ú©ÛŒ طلب ہے ØŒ اور اﷲتعالیٰ ان Ú©Û’ ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ ان کا دل اطمینان ویقین Ú©ÛŒ دولت سے مالامال ہو جا تا ہے اور ان Ú©ÛŒ بصیرت Ú©Û’ سامنے سے تمام Ø+جابا ت یک قلم ہٹ جاتے ہیں ہم Ù†Û’ اوپر بیان کیا ہے کہ یہ تین شخص درØ+قیقت تین جماعتوں Ú©Û’ نمائندے ہیں اور خدا Ú©ÛŒ روشنی ان تینوں جماعتوں Ú©Û’ ساتھ تین مختلف قسم Ú©Û’ معاملے کرتی ہے۔



  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: قانونِ ہدایت Û”Û”Û”Û”Û” مولانا امین اØ+سن اصلاØ+ÛŒ


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •